My scattered words.
Don't believe in anything that begins with a don't. https://aamirbilal.com/ https://twitter.com/aamirbilal https://instagram.com/aamirbilal https://tiktok.com/@aamiralibilal
ہر سال کی طرح اِس سال بھی اُس فون بنانے والی کمپنی نے نیا فون متعارف کروا دیا جس کو خریدنا لوگ معیار زندگی کی پہچان اور اَمارت کی نشانی سمجھتے ہیں. ان کا کہنا ہے کہ اپنے پچھلے تمام سے اعلٰی اور حُرفَا کی ہر پیش کش سے بہترین یہ نیا فون زندگی بدل دینے کا وہ واحد نسخہ ہے جس کے بنا آپ کا جیون ادھورا ہے. خود نمائی، تشہیر دولت، اعلان رسوخ جیسے مقاصد پورے ہونے پر اگلے سال پھر سے ایک نیا نقش خریدار کو اسی فریب سے خواہاں میں بدل دینے کا کام کرے گا. کمپنی کا یہ دعوی کہ ان کا تراشا ہوا یہ علم و ہنر کا ٹکرا ہر خوبی کا حامِل ہے محض ایک جھانسہ ہے. ہاں سب نیا ضرور ہے مگر ضرورت نہیں. لالچ نے زمین کے مَعادِن سے کچھ لوگوں کی تجوریوں کو بھرنے کے لیے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے. موسم کی تباہ کاریاں اور ارضی تغیرات اسی کا باب ہیں. دل کے کسی کونے میں کھیلتا ہوا وہ بچہ جسے اب بھی چمکتے انگاروں میں کشش محسوس ہوتی ہے، اپنی توجہ کسی بھی نئی شے کی جانب مڑتی پاتا ہے. خوب سے خوب تر کیمرا، عمدہ اسکرین اور جدت کا احساس اس کی توجہ کو موڑنے میں کردار ادا کرتے ہیں. پھر اب کا عامر اس نئے فون میں وہ سب ڈھونڈنے کی ایک لایَنْحَل سعی کرتا ہے جو اِسے حقیقتا قابل چاہ نگینہ بنا دے. کیا یہ نیا فون ماہ عزا کے دن گھٹا سکتا ہے؟ کیا بنا کچھ کہے جذبات کو الفاظ کے روپ میں آزادی دے سکتا ہے؟ کیا گزرے دنوں کی مزید جھلکیاں دیکھا کر انمول لمحات کو دوبارہ جینے کا موقع دے سکتا ہے؟ کیا ایک بار پھر سے ان پیاروں سے بات کروا سکتا ہے جن سے اب گفتگو نہیں ہوتی؟ بس صرف ایک بار کو ہی سہی. گویا یہ ٹکڑا بھی اس شکل کا نہیں جس شکل کا دل میں چھید ہے. https://aamirbilal.com/ https://twitter.com/aamirbilal https://flickr.com/photos/aamirbilal https://facebook.com/aamiralibilal
بکسے سے آج وہ کتاب نکلی جو اس سے آخری ملاقات کے بعد سفر میں ساتھ تھی. پھر کتنے موسم بے رنگ گزرے. نہ اس لمحے کا نقش بدلا نہ اس دوپہر کا رنگ. جیسے کتاب کے باہر بھی کچھ ضرور رہ گیا جس پر وقت کا زنگ بے اثر ہے. ایک کہانی کتاب کے اندر قید تھی جس کے کردار آج بھی لمحات اور حالات میں وہیں معلق ہیں. ایک کہانی کتاب کے باہر تھی جس کا یہ ایک بے وقعت ذرّہ ہے. وقت کل کو ہیروں کو بھی خاک کر دے گا اور یہ دور ذرّہ پروروں کی کنگالی کا دور ہے. جذبات کو آزادی دینے کے ساتھ ذرات کو بکھرنے سے بچانے کا کام بھی سیاہی کے ایک ذرے نے ہی کیا. یہ اس ذرے کی کہانی ہے. https://twitter.com/aamirbilal https://flickr.com/photos/aamirbilal https://instagram.com/aamirbilal
An experience from a winter night. https://twitter.com/aamirbilal https://instagram.com/aamirbilal https://facebook.com/aamiralibilal https://aamirbilal.com/
گھر کا مالک گھر میں رہتا ہے. لیکن دل کا مالک دل میں نہیں رہتا. اس کے گھومنے کی عادت اسے خون کی طرح گردش میں رکھتی ہے. جب وہ آنکھوں تک پہنچتا ہے تو ہر جگہ دکھائی دینے لگتا ہے، ہر چہرے میں اپنی مماثلت بناتا ہے. بادل بھی اس کے زیر اثر ہو جاتے ہیں تب ہی تو ان میں بھی وہی نظر آتا ہے. جب گردش کرتا کانوں تک پہنچتا ہے تو کانوں میں بھی اور گانوں میں بھی اسی کی آواز سنائی دیتی ہے. سڑک پر دل افسردہ کر دینے والا ٹریفک کا شور بھی غائب ہو جاتا ہے. کچھ سنائی دیتا ہے تو صرف اس کی آواز جس میں سب آوازیں گم ہو چکی ہوتی ہیں. گردش اسے زبان تک ضرور لے جاتی ہے لیکن دنیا کو بھی نظر نہ آ جائے، وہ الفاظ کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے. باتوں کے جادو کو جان وہی تو دیتا ہے. پھر دوڑتا ہوا پھیپڑوں میں سانس بن جاتا ہے تو جگر میں جان. اس کا روٹھ جانا بھوک بھی مٹا دیتا ہے. اور بھی اعضاء ہیں جہاں قدم رکھتے وہ ہر اس جذبے کو بھڑکتا ہے جس کے لیے قدرت نے وہ اعضاء بنائے. واپس دل تک پہنچنے سے پہلے وہ دماغ اور ذہن تک لازمی آتا ہے.اس کے ذہن میں آنے کی وجہ سے تو یہ الفاظ بھی پیدا ہوئے. میں اکیلا تو نہیں جس نے اس کے بارے میں کچھ لکھا. بازار بھرے پڑے ہیں ان کتابوں سے جو اس کے ذہن تک پہنچنے کے بعد تخلیق ہوئیں. آخر وہ دل تک واپس آ ہی جاتا ہے اور بنا دستک اندر بھی داخل ہو جاتا ہے. مالک جو ٹھہرا. میں کونے میں بیٹھا یہ تماشا دیکھتا رہتا ہوں. Originally written on June 3rd, 2021. https://aamirbilal.wordpress.com/2022/01/02/dilkamaalik/
اب ہم دونوں اس شہر میں نہیں رہتے. لیکن کتنے اور ہیں جو وہاں رہتے ہیں. شہر تو وہی ہے لیکن اس کے مکین بدل چکے ہیں. کبھی لگتا تھا کہ یہ سب ہمارا ہے. اب حقیقت صاف نظر آتی ہے. کسی اور نے بھی یوں ہی سوچا تھا. ہم نے اس کی جگہ لے لی. پھر ہم نے بھی یہی سوچا اور کسی نے ہماری جگہ لے لی. پھر کوئی اور اس کی جگہ لے گا اور شہر وہی رہے گا.
اس رات بہت بارش ہوئی تھی. میں جلد سو گیا. جب آنکھ کھلی تو میس اور کینٹین بند ہو چکے تھے. میں نے باہر سے کھانا کھانے کا ارادہ کیا اور ہلکی بارش میں کوٹ پہن کر نکل پڑا. کھانے سے فارغ ہو کر جب ہاسٹل واپس پہنچا تو بارش تیز ہونے لگی تھی. بجلی منقطع ہو چکی تھی اور ہر طرف اندھیرا تھا. سردی کی وجہ سے سب جاندار اپنی پناہ گاہوں میں تھے. میں بھی جلد قدم اٹھاتا اپنے کمرے تک پہنچ گیا. اندر کلاس کے کچھ دوست لالٹین جلا کر اس کے گرد جمع تھے. میں نے کوٹ ایک کھونٹی پر لٹکا دیا اور کمبل میں گھس گیا. کچھ لمحوں میں نیند آ گئی. مجھے نہیں پتا کہ میں کتنی دیر تک سوتا رہا لیکن جب آنکھ کھلی تو لالٹین جل رہی تھی اور کمرے میں میرے سوا کوئی نہیں تھا. اب بھی رات کا وقت تھا اور بدستور بارش ہو رہی تھی. کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ میں اب بھی نیند میں ہوں اور کوئی خواب دیکھ رہا ہوں. زندگی کا ہر لمحہ جو اس رات کے بعد سے اب تک گزرا ہے وہ ایک خواب ہے. ایک ایسا خواب جس سے میں جاگ نہیں پایا. لیکن ایک دن آنکھ کھلے اور میں ہر سکھ اور دکھ پھر سے جی سکوں. اب کی بار وہ غلطیاں نہ کروں جو اس بار مجھ سے ہوئیں. The post appears on the blog http://bit.ly/sardikiraat
The novel Asaib Nagri by M A Rahat
Asaib Nagri by M A Rahat Chapter 1 آسیب نگری ایم اے راحت